Friday 30 December 2022

یہ کیسا عیب مرے شہر کو لگا ہوا ہے

 یہ کیسا عیب مِرے شہر کو لگا ہوا ہے

جسے بھی دیکھیے وہ ہی خدا بنا ہوا ہے

یہ جس کے قرب پہ تُو بار بار اترائے

وہ حسن کل ہی مِرے عشق سے رہا ہوا ہے

اسے تو میں نے سکھایا تھا کیسے چلتے ہیں

وہ شخص جو کہ تِرا حوصلہ بنا ہوا ہے

یہ درد، درد نہیں ہے دوا ہے یار مِری

کسی فصیل کو ملبے کا آسرا ہوا ہے

میں تجھ کو روکنے آیا ہو یار چل مِرے ساتھ

تُو میرا دوست ہے اور عشق میں پڑا ہوا ہے

بچھڑ کے تجھ سے اگر نیند آ گئی ہے مجھے

تو جان لے کہ یہ تیرے لیے برا ہوا ہے


اویس علی

No comments:

Post a Comment