Thursday 29 December 2022

سب جانتی ہوں کرب ہے جو انتظار میں

 سب جانتی ہوں کرب ہے جو انتظار میں

گزرے ہیں ماہ و سال ہی لمبی قطار میں

خاموش رہ کے ظلم کی حامی نہ بن سکی

شامل ہوں کم سے کم کسی چیخ و پکار میں

ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر

ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں

گھنٹوں کی فون کال میں وہ لطف ہی کہاں

جو خامشی میں لطف ہے جو اختصار میں

ہم کھو گئے تو ڈھونڈتے پھرتے رہو گے تم

لاکھوں میں مل سکیں گے نہ ہم سے ہزار میں

شعر و سخن یہ باپ کی جاگیر بھی نہ تھا

اور نہ کسی سے مانگ کے لائی ادھار میں

قربت کی انتہا پہ ہے اک شخص دور سے

ڈھلتی ہے شامِ ہجر بھی اس کے حصار میں


فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment