ہم نے پھولوں کو جو دیکھا لب و رخسار کے بعد
پھول دیکھے نہ گئے حسنِ رخِ یار کے بعد
کام نظروں سے لیا ابروئے خمدار کے بعد
تیر مارے مجھے اس شوخ نے تلوار کے بعد
جس پہ ہو جائیں فدا کوئی بھی ایسا نہ ملا
سیکڑوں دیکھے حسیں آپ کے دیدار کے بعد
دلربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی
میرے سرکار سے پہلے مِرے سرکار کے بعد
زندگی موت سے کچھ کم نہ تھی اے جانِ حیات
تیرے اقرار سے پہلے تِرے انکار کے بعد
دل و جاں کر کے فدا ان کو بنایا اپنا
عشق کے کھیل میں جیت اپنی ہوئی ہار کے بعد
چین پھر اور کہیں پا نہ سکے اے پرنم
ہم زمانے میں پھرے کوچۂ دلدار کے بعد
پرنم الہ آبادی
No comments:
Post a Comment