لگا کر عمر جو پایا گیا ہے
میرا وہ خوابی سرمایہ گیا ہے
ہمارے گھر کی بربادی میں ویسی
تمہارا ہاتھ بھی پایا گیا ہے
میں اس لشکر کا فوجی ہی نہیں تھا
زبردستی مجھے لایا گیا ہے
بتاؤ سیکھنی ہے کس کو عبرت
ہمیں کیوں یاد فرمایا گیا ہے
ہمارے دشمنوں میں سب سے اوّل
ہمارا نام لکھوایا گیا ہے
نہیں ممکن کوئی تعبیر جس کی
مجھے وہ خواب دکھلایا گیا ہے
فقط پتے ہی جاتے پھر تو کیا تھا
شجر کا حسن اور سایہ گیا ہے
یہ گلیاں دوڑتی ہیں نوچنے کو
وہ جب سے شہر، ہمسایہ گیا ہے
ہوا ہے عشق جس جس کو بھی ویسی
پلٹ کے سب کی ہی کایا گیا ہے
اویس احمد ویسی
No comments:
Post a Comment