ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی
زندگی ہم سے کسی طور سنواری نہ گئی
جب کسی بزمِ طربناک میں جانا چاہا
خلعت رنج و الم تن سے اتاری نہ گئی
تم مجھے چھوڑ گئے ہو تو تمہاری مرضی
ہاں مگر دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی
تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا
یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی
تُو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا
تُو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی
محب الحق وفا
No comments:
Post a Comment