Thursday 22 December 2022

ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی

 ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی

زندگی ہم سے کسی طور سنواری نہ گئی

جب کسی بزمِ طربناک میں جانا چاہا

خلعت رنج و الم تن سے اتاری نہ گئی

تم مجھے چھوڑ گئے ہو تو تمہاری مرضی

ہاں مگر دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی

تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا

یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی

تُو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا

تُو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی


محب الحق وفا

No comments:

Post a Comment