بنے ہوؤں کو بنا کر دوبارہ اس نے دیا
خدا نے چاک گھمایا تو گارا اس نے دیا
بلندیوں سے بھی کافی بلند ہے وہ مگر
گِرے پڑوں کو ہمیشہ سہارا اس نے دیا
زمیں ڈراتی رہی اور لوگ ڈرتے رہے
پھر ایک غار سے اک دن اشارہ اس نے دیا
جہان، رزق، محبت، کلام، نام تمام
ہمیں تو جو ملا سارے کا سارا اس نے دیا
یہاں بھی اس نے ہی رکھے ہوئے ہیں سارے بھرم
وہاں بھی نام ہمارا تمہارا اس نے دیا
اسے بتاؤ کبھی راستہ بھٹک جاؤ
مجھے ہر ایک سفر میں ستارہ اس نے دیا
میں کھو رہا تھا تو دل کا مکین بن گیا وہ
میں رو رہا تھا تو ہنسنے کا یارا اس نے دیا
احمر فاروقی
No comments:
Post a Comment