نسلِ انساں میں محبت کی کمی آج بھی ہے
اور ازل سے جو ملی کم نظرِی آج بھی ہے
جھکتی ہے اس کی طرف اب بھی عیارِ انصاف
وہ کہ ہر جرم سے پہلے تھا بری آج بھی ہے
یوں تو پہلے سے نہیں اس سے مراسم پھر بھی
وہ جو ہم رشتگی پہلے تھی کبھی، آج بھی ہے
جِس نے رکھا ہے سیہ خانۂ دل کو روشن
شمع احساس وہ سینے میں جلی آج بھی ہے
چمنِ جاں میں جو موسم بھی ہو، اے جانِ جہاں
شجرِ غم کی ہر اک شاخ ہر ی آج بھی ہے
جان و دِل کر دئیے قربان وفا کی خا طر
یارِ بے مہر کی بے مہری وہی آج بھی ہے
وہ جو صحرا میں لیے پِھرتی تھی ہر دم راہی
کیا کِیا جائے، وہ آشفتہ سری آج بھی ہے
نواب حیدر نقوی راہی
No comments:
Post a Comment