سو گئے تھک کے غمِ زِیست کے مارے ہوئے لوگ
لوگ کہتے ہیں کہ؛ اللہ کو پیارے ہوئے لوگ
کیوں نہ وحشت زدہ ہوں صبح کی تارِیکی سے
رات بھر محفلِ جاناں گزارے ہوئے لوگ
نوعِ انساں پہ مسلط ہیں جدھر بھی دیکھو
جانے کِن جُھوٹے خداؤں کے اتارے ہوئے لوگ
نا مرادی کو سمجھ بیٹھیں نہ تقدیر اپنی
جیتنا بھول نہ جائیں کہِیں ہارے ہوئے لوگ
شاذ مِلتے ہیں مگر یاد بہت رہتے ہیں
حرف کو لہجۂ اُلفت سے نکھارے ہوئے لوگ
خاک اُڑاتی ہے اسی دُھن میں ہوا شہر بہ شہر
"کیا ہوئے بادِ بیاباں کے پُکارے ہوئے لوگ"
علی مینائی
No comments:
Post a Comment