Thursday 29 December 2022

ہمیں میں تھا کہیں کچھ رائیگاں ہونے پہ آمادہ

 ہمیں میں تھا کہیں کچھ رائیگاں ہونے پہ آمادہ

سُلگ کر اندر اندر ہی دھواں ہونے پہ آمادہ

اِدھر سینے میں صحرا نے ٹھہر جانے کی ٹھانی ہے

اُدھر آنکھوں میں اک دریا رواں ہونے پہ آمادہ

جسے بھی دیکھیے اک خوف کے عالم میں لگتا ہے

زباں ہوتے ہوئے بھی بے زباں ہونے پہ آمادہ

اٹھا کر اب نظر دیکھے تو کوئی کس طرف دیکھے

کہ ہر منظر ہے آنکھوں پر گراں ہونے پہ آمادہ

کسی نے ہنستے ہنستے دل ہمارا توڑ ڈالا ہے

بس اتنا واقعہ ہے داستاں ہونے پہ آمادہ

ہوا سی چل رہی ہے ہر طرف بے اعتباری کی

یقین بھی ہو چلے سارے گماں ہونے پہ آمادہ

جہاں ہونا ہے ممکن صرف خوابوں اور خیالوں میں

ہوا جاتا ہے دل اپنا وہاں ہونے پہ آمادہ


راجیش ریڈی

No comments:

Post a Comment