نوکِ سِناں پہ عشق ادا کر رہا تھا میں
دشتِ بُتاں میں حمد و ثنا کر رہا تھا میں
نازل ہوئی ہے مجھ پہ قیامت ابھی ابھی
اک شخص تھا کہ جس کو خدا کر رہا تھا میں
نادم ہوں، اے عظیم خدا! مجھ کو بخش دے
اب تک تِری نماز قضا کر رہا تھا میں
کتنے ہی لوگ تھے جو مِری دسترس سے دور
کتنے ہی پھول تھے جو خفا کر رہا تھا میں
بے ساختہ وہ نام لیا، اور بھُلا دیا
حالانکہ جانتا تھا بُرا کر رہا تھا میں
کارِ جہان، اُس کی گلی، سب کی خیر ہو
کل شب سے بے سبب کی دعا کر رہا تھا میں
داؤد سید
No comments:
Post a Comment