Saturday, 31 December 2022

میں نہ رانجھا نہ مجھے ہیر کا دکھ

 میں نہ رانجھا نہ مجھے ہیر کا دُکھ

کس پہ کھلتا مِری تحریر کا دکھ

میرے لفظوں میں نمی ہے اپنی

میرے شعروں میں نہیں میر کا دکھ

سانس لیتی ہوئی گردن کی چمک

زنگ لگتی ہوئی شمشیر کا دکھ

سات رنگوں کی سمجھ سے باہر

آٹھواں رنگ ہے تصویر کا دکھ

مر چکا ہوں تو میں سمجھوں کیسے

بَین کرتی ہوئی ہمشیر کا دکھ

پاؤں کاٹوں، اسے آزاد کروں

کچھ تو کم ہو مِری زنجیر کا دکھ

میرے سینے میں ترازو ہو کر

بڑھ بھی سکتا ہے میاں تیر کا دکھ

دکھ کو سہنا کوئی آسان نہیں

اور پھر خاکِ ہمہ گیر کا دکھ

ایک ٹھہرے ہوئے منظر کا خمار

ایک کھینچی ہوئی تصویر کا دکھ

یہ براہیمؑ سمجھ سکتا ہے

کتنا جاں سوز ہے تکبیر کا دکھ

ہوں میں کس دائرۂ وقت میں زیب

کوئی عجلت ہے نہ تاخیر کا دکھ


زیب اورنگ زیب

No comments:

Post a Comment