مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
اعتبار اس کا ہمیشہ کرنا
وہ تو جُھوٹی بھی قسم کھائے گا
تو نہ ہو گی تو پھر اے شامِ فراق
کون آ کر ہمیں بہلائے گا
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
کائنات اس کی میری ذات میں ہے
مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا
نہ رہے، جب وہ بھلے دن بھی قتیل
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment