سال ہر سال اک گنواتے ہیں
اور پھر جشن بھی مناتے ہیں
ایک امید ہم نئی لے کر
پھر سے بُجھتے دیے جلاتے ہیں
پچھلے زخموں کو بھول بھال کے پھر
زخم خود کو نیا لگاتے ہیں
لاکھ آؤ بھگت کرو ان کی
سال ہر سال یہ رُلاتے ہیں
چھوڑ ان ماہ و سال کو ابرک
دُور دنیا نئی بساتے ہیں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment