Wednesday 28 December 2022

بہت دنوں سے تجھ سے بات نہیں ہوئی

 بہت دنوں سے تجھ سے بات نہیں ہوئی


بہت دنوں سے خاموشی ہے

کسی آواز کی دمک

نہ اب فون کی دوسری جانب سے

سماعت کی گھپ اندھیر وادی میں اترتی ہے

نہ ہونٹوں کے مقابل کوئی پھول آتا ہے

اس شہر کی رونق قابلِ رشک ہے

جہاں کی شامیں اب تیری آواز کے جادو سے

تیرے بدن کی خوشبو، تیری آنکھوں کی ضیا سے

طلسم افزا ہوتی ہیں

اور اک میرے شہر کا موسم ہے

کہ جس پر

اداسیوں کے گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں

پرفیومز کی دکانوں پر اب بھی سکتہ سا طاری ہے

روشنیوں سے بھرپور شاپنگ مالز بالآخر

اپنا اثر اور جاذبیت کھو چکے ہیں

جناح پارک ہو یا اس کے وسط میں مجسم لائبریری

دن بھر پرندوں کی الجھی ہوئی آوازوں سے سر پیٹتی ہے

اور شام ہوتے ہی گرد آلود فضاؤں کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے

یہ کیسا دُھندلکا پھیلا ہے ہر سُو

یہ کون شہر سے رُخصت ہو گیا ہے


عاصمہ طاہر

No comments:

Post a Comment