بہت دنوں سے تجھ سے بات نہیں ہوئی
بہت دنوں سے خاموشی ہے
کسی آواز کی دمک
نہ اب فون کی دوسری جانب سے
سماعت کی گھپ اندھیر وادی میں اترتی ہے
نہ ہونٹوں کے مقابل کوئی پھول آتا ہے
اس شہر کی رونق قابلِ رشک ہے
جہاں کی شامیں اب تیری آواز کے جادو سے
تیرے بدن کی خوشبو، تیری آنکھوں کی ضیا سے
طلسم افزا ہوتی ہیں
اور اک میرے شہر کا موسم ہے
کہ جس پر
اداسیوں کے گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں
پرفیومز کی دکانوں پر اب بھی سکتہ سا طاری ہے
روشنیوں سے بھرپور شاپنگ مالز بالآخر
اپنا اثر اور جاذبیت کھو چکے ہیں
جناح پارک ہو یا اس کے وسط میں مجسم لائبریری
دن بھر پرندوں کی الجھی ہوئی آوازوں سے سر پیٹتی ہے
اور شام ہوتے ہی گرد آلود فضاؤں کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے
یہ کیسا دُھندلکا پھیلا ہے ہر سُو
یہ کون شہر سے رُخصت ہو گیا ہے
عاصمہ طاہر
No comments:
Post a Comment