اے شعاعِ سحرِ تازہ نئے سال کی ضَو
میرے سینے میں بھڑکتی ہے ابھی درد کی لَو
میری آنکھوں میں شکستہ ہیں ابھی رات کے خواب
میرے دل پر ہے ابھی شعلۂ غم کا پرتَو
جا بجا زخم تمنا کے مِری خاک میں ہیں
کیا ابھی اور بھی ناوک کفِ افلاک میں ہیں
ہر نئے سال کی آمد پہ یہ خوش فہم تِرے
پھر سے آراستہ کرتے ہیں در و بام اپنے
پھر سے واماندہ ارادوں کو تسلی دینے
ہم بُھلا دیتے ہیں کچھ دیر کو آلام اپنے
گُل شدہ شمعوں کو ہم پھر سے جلا دیتے ہیں
پھر سے ویرانئ قسمت کو دعا دیتے ہیں
یوں ہی ہر سال مِرے دیس کی بے بس خلقت
پھر سے ادوار کے انبار میں دب جاتی ہے
خود فریبی کے تبسم کو سجا لینے سے
شدتِ کرب بھلا چہروں سے کب جاتی ہے
منزلِ شوق کا اب کوئی بھی دلدادہ نہیں
وہ تھکن ہے کہ مسافر سفر آمادہ نہیں
اک نظر دیکھ یہ انبوہ در انبوہ غلام
جو فقط شومئی تقدیر سے وابستہ ہیں
ان کو کچھ بھی تو بجز وعدۂ فردا نہ ملا
یہ جو خود ساختہ زنجیر سے پابستہ ہیں
ان کا ایک ایک نفس رہن ہے اغیار کے پاس
اب تو غمخوار بھی آتے نہیں بیمار کے پاس
اے نئے سال! کروں میں بھی سواگت تیرا
تُو اگر دل سے مِرے چاک قبائی لے لے
میں تو اس صبحِ درخشاں کو تونگر جانوں
جو مِرے ہاتھ سے کشکولِ گدائی لے لے
جو مِری خاک کو مستِ مئے پندار کرے
جو مِرے دشتِ وفا کو گل و گلزار کرے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment