پڑھ کے دو چار کیا کتاب آئے
اُن کے حصے میں دس خطاب آئے
میرے لب پر سوال کیا آیا
جو جواب آئے، لا جواب آئے
اک تصوّر میں کٹ گئیں راتیں
نیند آئی، نہ کوئی خواب آئے
اُن کو محشر میں مِل گئی راحت
کر کے اپنا جو احتساب آئے
آپ نظریں جُھکا کے چلیے جناب
اُن کے چہرے پہ کیوں نقاب آئے
قبر سے کہہ رہا تھا اک مُنکر
ہائے، پرچے بڑے خراب آئے
ہم نے احسن روِش نہیں بدلی
لاکھ دُنیا میں انقلاب آئے
مشتاق احسن
No comments:
Post a Comment