Wednesday 28 December 2022

اپنے چہرے پہ ہی چہرہ نیا بنواؤں گا

 اپنے چہرے پہ ہی چہرہ نیا بنواؤں گا

جیسا تُو چاہے گا ویسا ہی نظر آؤں گا

میں شجر ہوں تیرے ہونے سے ہی سرسبز ہوں میں

تجھ سے بچھڑوں گا تو اک دن میں اُجڑ جاؤں گا

روزِ محشر مجھے خالق نے اگر مہلت دی

اِک غزل تجھ پہ تقی میر سے لکھواؤں گا

دھڑکنیں دل کی تیرے نام سے منسوب ہیں اب

تجھ سے چاہت کو جو روکوں گا تو مر جاؤں گا

مصر والے بھلے دُشمن مجھے سمجھیں اپنا

میں زلیخا کی حمایت میں ہی چِلّاؤں گا

تُو قدم ساتھ بڑھا میرے بہاؤ کی طرف

انتہاء پر میں سمندر ہی نظر آؤں گا

شمس رہتا ہے نمازوں میں بھی اُس کا ہی خیال

جانے کیا رب سے میں سجدوں کی جزا پاؤں گا


شمس بلتستانی

No comments:

Post a Comment