سخنور
سخنور ہونا
بھی عذاب ٹھہرا
کہ لمحہ لمحہ
تخلیق کے
کرب سے گزرو
جمع و تفریق کی
جرب سے گزرو
اور پھر جہاں
وجدان پہ پہرے ہوں بٹھائے ہوئے
تخلیق لٹکی ہوئی ہو جیسے
تختئہ دار پہ
اور لفظ ہوں
زندہ لاشے جیسے
اب شاید ہی کوئی
فیض اور جالب آئے
کہ مدت ہوئی
میر اور غالب آئے
جب قلم کی نوک سے
بارود اُگلا جانے لگے
کتنے معصوم تخیل تھے
جو ٹھکانے لگے
اب یہاں کون
سخنور کہلائے گا
کہ جب
حرف لہو لہو ہوں
اور
خیال لرزیدہ
اب کوئی تخلیق
کسی حسینہ کے
کاجل سے لپٹ کر
بین نہیں کرتی
بلکہ
پرمٹ اور پلاٹوں
کے گلے لگ کر
دھاڑیں مارتی ہے
یوسف عالمگیرین
No comments:
Post a Comment