Friday 30 December 2022

ہیں لمحے لمحے کو ازبر نصاب یادوں کے

ہیں لمحے لمحے کو ازبر نصاب یادوں کے

میں بُھولتا ہی کہاں ہوں حساب یادوں کے

جہاں سے گُزرا تھا وہ قافلہ بہاروں کا

وہاں پہ بکھرے ہیں اب بھی گُلاب یادوں کے

ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ایک ہی موسم

برستے رہتے ہیں ہر دم سحاب یادوں کے

گئی رُتوں کا مِرے چاروں اور میلہ ہے

اُلٹ دئیے ہیں یہ کس نے نقاب یادوں کے

وہ جاتے جاتے مجھے یہ پیام دے کے گیا

ہمیشہ رکھنا ان آنکھوں میں خواب یادوں کے

ہمارا رابطہ رہتا ہے مُستقل ان سے

جبھی تو وا سدا رہتے ہیں باب یادوں کے

اُترتے رہتے ہیں دل پر جلیل ہر لحظہ

صحیفے درد کے بن کر عذاب یادوں کے


احمد جلیل

No comments:

Post a Comment