بچھڑ چکے ہیں
سو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں
فقط دکھاوا ہیں سرد آہیں
جو آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی
وہ بجھ چکی ہے
اکھڑ چکا ہے وہ سانس جس سے
حیات تھے رابطے ہمارے
جدا ہیں اب راستے ہمارے
مسافتیں ختم ہو چکی ہیں
برائے دنیا ہے راہ گردی
مروتاً ہیں مروتیں بھی
یہ ہاتھ ہاتھوں میں جانتے ہو کہاں تلک ہے
حسابِ سود و زیاں تلک ہے
ہیں منتظر اب کہ کب کوئی ایسا موڑ آئے
کہ بارِ الزامِ بے وفائی کوئی اٹھائے
جو مسکراہٹ ہمارے چہرے کو دیکھ کر ان لبوں پہ آتی
جبیں کی شکنوں میں ڈھل چکی ہے
وہ ہونٹ جن پہ ہمارے بوسوں سے سرخیاں تھیں
وہ ہونٹ شکووں سے اٹ چکے ہیں
ہم ایک دونوں میں بٹ چکے ہیں
تو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں
ظہیر مشتاق
No comments:
Post a Comment