Friday 23 December 2022

تو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں

 بچھڑ چکے ہیں


سو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں 

فقط دکھاوا ہیں سرد آہیں 

جو آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی 

وہ بجھ چکی ہے 

اکھڑ چکا ہے وہ سانس جس سے 

حیات تھے رابطے ہمارے 

جدا ہیں اب راستے ہمارے 

مسافتیں ختم ہو چکی ہیں 

برائے دنیا ہے راہ گردی 

مروتاً ہیں مروتیں بھی 

یہ ہاتھ ہاتھوں میں جانتے ہو کہاں تلک ہے

حسابِ سود و زیاں تلک ہے

ہیں منتظر اب کہ کب کوئی ایسا موڑ آئے 

کہ بارِ الزامِ بے وفائی کوئی اٹھائے 

جو مسکراہٹ ہمارے چہرے کو دیکھ کر ان لبوں پہ آتی 

جبیں کی شکنوں میں ڈھل چکی ہے 

وہ ہونٹ جن پہ ہمارے بوسوں سے سرخیاں تھیں 

وہ ہونٹ شکووں سے اٹ چکے ہیں 

ہم ایک دونوں میں بٹ چکے ہیں 

تو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں


ظہیر مشتاق

No comments:

Post a Comment