Tuesday 27 December 2022

آب رواں ہوں راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لوں

آبِ رواں ہوں راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لوں 

میں تیرے انتظار میں کب تک رکا رہوں 

تاریکیاں محیط ہیں ہر انجمن پہ آج 

لازم نہیں کہ میں تِری محفل میں ہی جلوں 

گھبرا رہا ہے جی مِرا تن کے مکان میں 

مجبوریوں کے سائے میں کب تک پڑا رہوں 

نکلا ہوں تیری بزم سے مانند دود شمع 

چاہوں بھی اب کبھی تو میں واپس نہ آ سکوں 

ملنا تِرا تو خیر بڑی بات ہے مگر 

اتنا بھی کم نہیں ہے کہ میں خود کو ڈھونڈ لوں 

خود سے بھی کوئی ربط نہیں میرا ان دنوں 

تجھ سے تعلقات کی تجرید کیا کروں 

آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو منظر مٹے مٹے 

اے زندگی کہاں سے تجھے آب و رنگ دوں 

روحی! یہ دور زیست مسلسل عذاب ہے 

کھل کر نہ ہنس سکوں نہ کبھی کھل کے رو سکوں 


روحی کنجاہی

No comments:

Post a Comment