چیت کی راتیں یاد کرو
نکھرا تھا جب چاند کا چہرہ
بِکھرا تھا کرنوں کا صحرا
گائے تھے جب گیت ہوا نے
آئے تھے تم نیند چرانے
بُھولی باتیں یاد کرو
چیت کی راتیں یاد کرو
چنچل تارے مُسکاتے تھے
یوں آکاش میں چُھپ جاتے تھے
جیسے کھیتوں میں ہمجولی
کھیل رہے ہوں آنکھ مچولی
پیاری گھاتیں یاد کرو
چیت کی راتیں یاد کرو
آبادی سے دور نکل کر
ایک نئے سانچے میں ڈھل کر
بے سُدھ ہم تم ہوتے تھے جب
نین خوشی سے روتے تھے جب
وہ برساتیں یاد کرو
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment