Thursday 22 December 2022

اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو

 اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو

مجھ سے بکھرے ہوئے گیسو نہیں دیکھے جاتے

سرخ آنکھوں کی قسم کانپتی پلکوں کی قسم

تھرتھراتے ہوئے آنسو نہیں دیکھے جاتے


اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو

چھوٹ جانے دو جو دامان وفا چھوٹ گیا

کیوں یہ لغزیدہ خرامی پہ پشیماں نظری

تم نے توڑا تو نہیں رشتۂ دل ٹوٹ گیا


اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو

میری آہوں سے یہ رخسار نہ کمھلا جائیں

ڈھونڈتی ہو گی تمہیں رس میں نہائی ہوئی رات

جاؤ کلیاں نہ کہیں سیج کی مرجھا جائیں


کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment