Saturday 24 December 2022

دکھ سے بھر گیا ہوں میں میں بہت عجیب ہوں

دکھ سے بھر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں

خود سے ڈر گیا ہو میں، میں بہت عجیب ہوں

تیرا نام بار ہا لب پہ آ رہا ہے کیوں

کیوں سنور گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں

کیا مہیب ہو گئی شوق کی تمام راہ

لو اتر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں

اپنا ہاتھ کاٹ کر تیرے خواب رنگ دوں

رنگ بھر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں

اس نگاہ سے کیا زوال جب کمال تھا

یہ بھی کر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں

اپنا رنگ ہر طرف، اپنا ہی خون جا بجا

یوں بکھر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں


ابو لویزا علی

No comments:

Post a Comment