ستم ستم ہی رہیں گے، کرم نہیں ہوں گے
غزل میں ہم سے قصیدے رقم نہیں ہوں گے
تھے اپنے ساتھ خرد نام کے بزرگ کوئی
خدا کا شکر کہ اب محترم نہیں ہوں گے
تمہارے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی قسم
بچھڑ گئے تو کسی کے بھی ہم نہیں ہوں گے
تعلقات کا قصہ بھی مختصر ہے بہت
کبھی ہوئے تو کبھی ایک دم نہیں ہوں گے
ہمارے اشک کبھی ساتھ ساتھ گرتے تھے
یہ غمگسار بھی اب ہم قدم نہیں ہوں گے
کسی نے پوچھ لیا اب تو کیا کہیں گے اسے
کہ روشناس بھی ہم بیش و کم نہیں ہوں گے
فاضل جمیلی
No comments:
Post a Comment