دور کرنے کو تِری زلف کا خم اتریں گے
آسمانوں کے ستارے کوئی دم اتریں گے
حوصلہ اور ذرا حوصلہ اے سنگ بدست
وقت آئے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے
ایک امید پہ تعمیر کیا ہے گھر کو
اس کے آنگن میں کبھی تیرے قدم اتریں گے
ہمیں لکھنا ہے زمیں والوں کے غم کا نوحہ
آسمانوں سے کسی روز قلم اتریں گے
اتنی آہیں نہ بھرو اشک نہ سارے بہہ جائیں
طبع نازک پہ ابھی اور بھی غم اتریں گے
جیسے ہم آنکھ ملا کر تِرے دل میں آئے
لوگ اس زینۂ دشوار سے کم اتریں گے
شاد و شاداب اسی وقت رہوں گا یاسر
سر قرطاس جب اشعار کے یم اتریں گے
علی یاسر
No comments:
Post a Comment