کھلی ہے راہِ ملاقات اب بھی آ جاؤ
کوئی نہیں ہے مِرے ساتھ اب بھی آ جاؤ
یہ اور بات کہ ساحل سے ناؤ چھوٹ چکی
بڑھا ہوا ہے مِرا ہاتھ، اب بھی آ جاؤ
بہت جواں ہے ابھی شہرِ انتظار کا چاند
بہت حسیں ہے ابھی رات اب بھی آ جاؤ
چھپا کے رکھی ہے آنکھوں میں ساتھ بھیگنے کو
کہیں گئی نہیں برسات اب بھی آ جاؤ
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment