Wednesday 21 December 2022

کھلی ہے راہ ملاقات اب بھی آ جاؤ

​کھلی ہے راہِ ملاقات اب بھی آ جاؤ​

کوئی نہیں ہے مِرے ساتھ اب بھی آ جاؤ​

یہ اور بات کہ ساحل سے ناؤ چھوٹ چکی​

بڑھا ہوا ہے مِرا ہاتھ، اب بھی آ جاؤ​

بہت جواں ہے ابھی شہرِ انتظار کا چاند​

بہت حسیں ہے ابھی رات اب بھی آ جاؤ

​چھپا کے رکھی ہے آنکھوں میں ساتھ بھیگنے کو ​

کہیں گئی نہیں برسات اب بھی آ جاؤ​

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment