مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے
اس درد نے اب میرا بدن اوڑھ لیا ہے
میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
اس شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے
اے گورکنو! قبر کا دے کر مجھے دھوکا
تم نے تو خلاؤں میں مجھے گاڑ دیا ہے
میں صاحب عزت ہوں مِری لاش نہ کھولو
دستار کے پرزوں سے کفن میں نے سِیا ہے
پھیلا ہے تِرا کرب قتیل! آدھی صدی پر
حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment