Wednesday 21 December 2022

مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے

 مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے

اس درد نے اب میرا بدن اوڑھ لیا ہے

میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں

اس شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے

اے گورکنو! قبر کا دے کر مجھے دھوکا

تم نے تو خلاؤں میں مجھے گاڑ دیا ہے

میں صاحب عزت ہوں مِری لاش نہ کھولو

دستار کے پرزوں سے کفن میں نے سِیا ہے

پھیلا ہے تِرا کرب قتیل! آدھی صدی پر

حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment