دور کہیں آکاش میں رہتے چاند سے کھیلا کرتے
کرنوں کی بگھی پہ بیٹھ کے سب جگ گھوما کرتے
دور دراز کے غار میں کوئی چھپا خزانہ ہوتا
ہم دونوں سر جوڑ کے اس کے نقشے سوچا کرتے
باہو کے دربار پہ جاتے "ہُو" کا نعرہ لگاتے
بُلھے کی کوئی کافی گاتے تھیا تھیا کرتے
خُسرو کی کسی بحر میں آتے کملی حرف کی اوڑھے
نصرت کی قوالی بنتے، تال پہ گونجا کرتے
موج موج دریا میں بہتے ڈیم میں جا کر ملتے
اک ہو کر ٹربائن پہ گرتے، بجلی پیدا کرتے
پاس لگے دو پیپل ہوتے دور پہاڑ کے اوپر
نام جہاں پر لکھ کر عاشق منت مانا کرتے
بلیک اینڈ وائٹ زمانہ ہوتا، ہم رنگین ہی رہتے
کے ایل سہگل کے گیتوں پر بھنگڑے ڈالا کرتے
ہم منصور زمانے والا پہیہ الٹا گھماتے
اور حلاج کے کان میں کہتے، سب نہیں بولا کرتے
منصور راٹھور
No comments:
Post a Comment