Tuesday 20 December 2022

دور کہیں آکاش میں رہتے چاند سے کھیلا کرتے

 دور کہیں آکاش میں رہتے چاند سے کھیلا کرتے

کرنوں کی بگھی پہ بیٹھ کے سب جگ گھوما کرتے

دور دراز کے غار میں کوئی چھپا خزانہ ہوتا

ہم دونوں سر جوڑ کے اس کے نقشے سوچا کرتے

باہو کے دربار پہ جاتے "ہُو" کا نعرہ لگاتے

بُلھے کی کوئی کافی گاتے تھیا تھیا کرتے

خُسرو کی کسی بحر میں آتے کملی حرف کی اوڑھے

نصرت کی قوالی بنتے، تال پہ گونجا کرتے

موج موج دریا میں بہتے ڈیم میں جا کر ملتے

اک ہو کر ٹربائن پہ گرتے، بجلی پیدا کرتے

پاس لگے دو پیپل ہوتے دور پہاڑ کے اوپر

نام جہاں پر لکھ کر عاشق منت مانا کرتے

بلیک اینڈ وائٹ زمانہ ہوتا، ہم رنگین ہی رہتے

کے ایل سہگل کے گیتوں پر بھنگڑے ڈالا کرتے

ہم منصور زمانے والا پہیہ الٹا گھماتے

اور حلاج کے کان میں کہتے، سب نہیں بولا کرتے


منصور راٹھور

No comments:

Post a Comment