تِری یادوں کی چادر اوڑھ لیتی ہوں
میں تنہا تو نہیں جاناں
مگر جب بھی پرندوں کو کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
کبھی تتلی کو پُھولوں کے لبوں کو چُومتے دیکھوں
ہواؤں پر کبھی بادل کے گورے سے ہیولوں کو
اچانک جُھولتے دیکھوں
میں باہر سے سبھی ناتوں کو اس پل توڑ لیتی ہوں
اور آنکھیں موند لیتی ہوں
اور اپنے سر پہ پل بھر کے لیے جاناں
تِری یادوں کی چادر اوڑھ لیتی ہوں
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment