Tuesday 20 December 2022

شعورِ زیست سہی اعتبار کرنا بھی

 شعورِ زیست سہی اعتبار کرنا بھی

عجب  تماشا ہے لیل و نہار کرنا بھی

حدیثِ غم کی طوالت گراں سہی لیکن

کسی کے بس میں نہیں اختصار کرنا بھی

بنا کے کاغذی گل لوگ یہ سمجھتے ہیں 

کہ اک ہنر ہے خزاں کو بہار کرنا بھی

اب اس نظر سے تِری راہ دیکھتا ہوں میں 

تِرا کرم ہے تِرا انتظار کرنا بھی

گزارنے کو تو ہم نے برس گزار دئیے

بڑا عذاب ہے گھڑیاں شمار کرنا بھی

خلوص و مہر کی کہنہ روایتوں پہ نہ جا

قدیم رسم ہے دھوکے سے وار کرنا بھی

اب اس کے وعدۂ فردا کا ذکر کیا کرنا

مجھے پسند نہیں انحصار کرنا بھی

ہمیں نے شوقِ شہادت کی ابتدا کی تھی

ہمیں پہ ختم ہوا جاں نثار کرنا بھی

جو رشک کرنا ہے تم کو تو رشک مجھ سے کرو

کہ میرا کام ہے لوگوں سے پیار کرنا بھی


رشک خلیلی

No comments:

Post a Comment