خدا خفا ہے
گُھٹن نہیں ہے، ہے خوف کوئی
جو سانس لینے سے روکتا ہے
جو روکتا ہے سماعتوں کو کسی بھی آہٹ پہ جاگنے سے
سُروں کو سُننے سے روکتا ہے
بصارتوں کو کسی بھی منظر کے دیکھنے سے
کسی نظارے کو ڈھونڈنے سے جو روکتا ہے
گُھٹن نہیں ہے، ہے خوف کوئی
میرے اطراف جتنے رشتے ہیں
سب نے چہروں پہ بے بسی کے ہیں ماسک پہنے
پھٹی پھٹی ہیں اب ان کی آنکھیں، وہ جن میں وحشت بھری ہوئی ہے
یوں دیکھیں مجھ کو جیسے کوئی لرزتے قدموں سے گہری کھائی میں دیکھتا ہے
وہ ابتلاء ہے کہ دُور دُنیا سے قرنطینہ پڑا ہوا ہوں
ہاں جی رہا ہوں، تمہاری یادوں کے وینٹی لیٹر پہ جی رہا ہوں
مگر یہ دُکھ ہے
گلوز پہنے ہوئے یہ سب لوگ مجھ کو چُھونے سے ڈر رہے ہیں
میں ان کو چُھونے سے ڈر رہا ہوں
میرے مسیحا قریب آنے سے ڈر رہے ہیں
مجھے بچانے سے ڈر رہے ہیں
مجھے خبر ہے میں لمحہ لمحہ اذیتوں سے گُزر رہا ہوں
میں مر رہا ہوں
میں جانتا ہوں اے رُوحِ ایماں! تِری جدائی کا یہ کرونا
مجھ ایسے لاکھوں ہزاروں جسموں کے پھیپھڑوں میں سما چکا ہے
ہمیں یہ اندر سے کھا چکا ہے
خدا را! مجھ کو دُعائیں مت دو
خدا خفا ہے
وہ اس لیے کہ
ہمارے پیٹوں میں سارے لُقمے حرام کے ہیں
ہماری جیبوں میں جو روپیہ ہے سُود کا ہے
ہماری آنکھوں میں یہ جو آنسُو ہیں، ظاہری ہیں
ہمارے لہجوں میں شرمساری بناوٹی ہے
ہمارے دل پہ سیاہ دھبّوں نے گھر کیا ہے
ہماری توبہ ہے اک گویّے کے راگ جیسی
خدا را! مجھ کو دُعائیں مت دو
خُدا خفا ہے
خُدا خفا ہے
مظہر فرید گبول
No comments:
Post a Comment