Tuesday 20 December 2022

ہم تم کو بتاتے ہیں پوچھو نہ زمانے سے

 ہم تم کو بتاتے ہیں پوچھو نہ زمانے سے

کچھ لفظ نہیں مٹتے سو بار مٹانے سے

مُدت سے اُداسی تھی مایوس تھے گُل بُوٹے

گُلشن میں بہار آئی بس آپ کے آنے سے 

ہوتی ہے ہنسی کیسی ہم بُھول چکے لیکن

لیتے ہیں مزہ اب بھی وہ دل کو دُکھانے سے

ہے اتنا اندھیرا کہ محسوس یہ ہوتا ہے

اب تیرگی جائے گی بس دل کو جلانے سے 

یہ کون سی منزل پر آ پہنچے ہیں ہم یارو

پاتے ہیں پتا اپنا اب ان کے ٹھکانے سے


فرزانہ ساجد

No comments:

Post a Comment