ہم تم کو بتاتے ہیں پوچھو نہ زمانے سے
کچھ لفظ نہیں مٹتے سو بار مٹانے سے
مُدت سے اُداسی تھی مایوس تھے گُل بُوٹے
گُلشن میں بہار آئی بس آپ کے آنے سے
ہوتی ہے ہنسی کیسی ہم بُھول چکے لیکن
لیتے ہیں مزہ اب بھی وہ دل کو دُکھانے سے
ہے اتنا اندھیرا کہ محسوس یہ ہوتا ہے
اب تیرگی جائے گی بس دل کو جلانے سے
یہ کون سی منزل پر آ پہنچے ہیں ہم یارو
پاتے ہیں پتا اپنا اب ان کے ٹھکانے سے
فرزانہ ساجد
No comments:
Post a Comment