دکھ درد مِرے پاس بھی جوہر کی طرح ہیں
ظلمت میں وہ قندیل منور کی طرح ہیں
فٹ پاتھ پہ راتوں کو مزہ ملتا ہے گھر کا
ہم دن کے اجالے میں تو بے گھر کی طرح ہیں
ٹھہرے ہیں مگر آگے ہے چلنے کا ارادہ
ہم لوگ یہاں میل کے پتھر کی طرح ہیں
ہر موج پہ ہمت مِری پتوار ہے، لیکن
امید کی آنکھیں تو سمندر کی طرح ہیں
چاہیں گے تو قدموں پہ یہ دنیا بھی جھکے گی
ہم اپنے ہی ہاتھوں میں مقدر کی طرح ہیں
سڑکوں پہ نکل آئیں تو آوارہ نہ سمجھو
ہم سینۂ صحرا میں کسی گھر کی طرح ہیں
ظفر امام
No comments:
Post a Comment