ہر ایک راہ سے آگے ہے خواب کی منزل
تِرے حضور سے بڑھ کر غیاب کی منزل
نہیں ہے آپ ہی مقصود اپنا جوہر ذات
کہ آفتاب نہیں آفتاب کی منزل
کچھ ایسا رنج دیا بچپنے کی الفت نے
پھر اس کے بعد نہ آئی شباب کی منزل
مسافروں کو برابر نہیں زمان و مکاں
ہوا کا ایک قدم اور حباب کی منزل
محبتوں کے یہ لمحے دریغ کیوں کیجے
بھگت ہی لیں گے جو آئی حساب کی منزل
ملے گی بادہ گساروں کو شیخ کیا جانے
گنہ کی راہ سے ہو کر ثواب کی منزل
مسام ناچ رہے ہیں معاملت کے لیے
گزر گئی ہے سوال و جواب کی منزل
ملی جو آس تو سب مرحلے ہوئے آساں
نہیں ہے کوئی بھی منزل سراب کی منزل
مزاج درد کو آسودگی سے راس کرو
کہاں ملے گی تمہیں اضطراب کی منزل
رہِ جنوں میں طلب کے سوا نہیں سید
اگرچہ طے ہو خدا کی کتاب کی منزل
مظفر علی سید
No comments:
Post a Comment