کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
کہ ایک دن زمین خود میں مدفون لاشیں اگلنے لگے گی
یہ مدفون لاشیں جو اب شے سے لاشے ہوئے جا رہیں ہیں
یہ کیا سوچتے ہیں
یہ کیا سوچتے ہیں، یہ کیا جانتے ہیں
انہیں فکر ہے یا نہیں ہے کہ
ان کو دوبارہ پکارا گیا تو یہ پھر چل پڑیں گے
یہ پچھلی تھکن اوڑھ لیں گے
اور اٹھنے سے انکار کرنے لگیں گے
مگر ان کا انکار اقرار کچھ بھی نہیں ہے
وہی آسماں ہے زمیں ہے
وہی روز اول سے آخر کے مابین ہم ہیں
یہ ہم جو بدن کے کفس میں پڑے ہیں
پڑے سوچتے ہیں ایک دن ہمیں بھی
زمین کھینچ لے گی آسمان نوچ لے گا
میں کیوں نوچا جاؤں
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
خدا اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے
خدا اپنے مشرق کے مشرق سے
مغرب کے مغرب میں جانے کہاں کھو گیا ہے
کوئی رابطہ اس سے ہوتا نہیں
مگر بتایا گیا ہے
کہ پچھلے دنوں وہ پہاڑی پر دیکھا گیا تھا
مگر اس خبر کی بھی تصدیق ممکن نہیں ہے
میں خبروں کی تصدیق کس سے کراؤں
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
سر شام آوارہ گردی کی خاطر میں کمرے میں اپنے ٹہلتا رہا
میں کمرے کی چیزوں میں بکھرا پڑا
میں درازوں میں رکھا ہوا
میں دیواروں میں اٹکا ہوا، میں فریموں میں لٹکا ہوا
میں کتابوں میں سویا ہوا ہوں
اگر تم کہو تو میں خود کو جگاؤں
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
زمانوں پرے غار میں سونے والوں کی تعداد کیا تھی
وہ یکسانیت جو فلک سے اترتی تھی افتاد کیا تھی
تمہیں یاد ہو گا میں شاید کہیں سے
خلد بریں سے پہاڑوں کے دامن میں پھینکا گیا
تو تمہیں ڈھونڈنے میں مجھے پورے چودہ زمانے لگے
پورے چودہ زمانوں کے معنی سکھاؤں
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
کہ میں آج کی شام بھی تمہیں
ڈھونڈنے کھوجنے میں غارت کر دوں گا
میں اب آئینوں کی عبادت کروں گا
مگر آئینے سب کے سینوں میں جو نصب ہیں
ایک دن کرچی کرچی بکھر جائیں گے
عکس مر جائیں گے
عکس مر جائیں گے یہ میں کس کو بتاؤں
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment