گھر بار کسی اور کا مختار کوئی اور
دربار کوئی اور ہے سرکار کوئی اور
مالک وطن کے ہم ہیں بِلا شرکتِ غیرے
کیوں ہم پہ چلاتا ہے اختیار کوئی اور
اونچے پہاڑ چار سُو، ناکے قدم قدم
ہم سا نہیں جہاں میں گرفتار کوئی اور
ہم اس طرح جڑے ہوئے ہیں ملکِ پاک سے
جیسے قمیض اور ہو، شلوار کوئی اور
حالات و واقعاتِ شہر اور ہی کچھ ہیں
لیکن خبر بناتے ہیں اخبار کوئی اور
ہر بار ٹال دیتے ہو وعدہ وعید سے
تجھ سا کہیں دیکھا نہیں مکّار کوئی اور
قاتل تو اور تھا مگر بدلے کے طور پر
مارا گیا ہے پھر سرِ بازار کوئی اور
میں اس کو منافق نہیں تو اور کیا کہوں
واعظ کا قول اور ہے کردار کوئی اور
کتنا عجیب ہے یہاں رائج نظامِ عدل
مجرم ہے کوئی اور سزاوار کوئی اور
دشمن ہمیں لڑا رہا ہے اس لیے بہم
ایسا تباہ کُن نہیں ہتھیار کوئی اور
ایسے بھی ہیں یہاں کئی شاعر و شاعرات
لکھتے ہیں جِن کے واسطے اشعار کوئی اور
شاعر ہوں لڑ رہا ہوں میں ہر ظلم کے خلاف
ہاتھوں میں ہے مِرے مگر ہتھیار کوئی اور
درد و غمِ وطن میں فنا ہو چکے ہو تم
تجھ سا نہ ہو گا شاہد وطن یار کوئی اور
شاہد حسین
No comments:
Post a Comment