کچھ ہیں مذہب کے جنوں میں غرق کچھ ذاتوں میں ہیں
دشمنانِ قوم ہر سُو مختلف گھاتوں میں ہیں
اک بہانہ ہے رسائی کا امیرِ شہر تک
ہم کو آپس میں لڑا کر خود ملاقاتوں میں ہیں
تیرے لہجے کی کھنک سے جُھومتی ہے انجمن
کس قدر رعنائیاں جاناں! تِری باتوں میں ہیں
جگ ہنسائی ہو چکی ہے انتشارِ قوم سے
مفسدانِ قوم پھر سے جنگ کی باتوں میں ہیں
اک خدا کی ذات سے وابستہ ہوں جس دن سے میں
تب سے اس دنیا کے سارے بُت مِری لاتوں میں ہیں
شہر کی رنگینیوں میں ڈھونڈتے ہو کیوں خلوص
صُورتیں مہر و وفا کی تاج! دیہاتوں میں ہیں
عبدالخالق تاج
No comments:
Post a Comment