مِرا پیغام عہدِ نو کے ہر فنکار تک پہنچے
تِری تخلیق تیرے درد کے معیار تک پہنچے
جلال حرفِ حق جن کـے لبِ اطہار تک پہنچے
سلاسل میں کبھی پابند، کبھی وہ دار تک پہنچے
قیافت ٹوٹ جاتی ہے تِرے سچے غـلاموں پر
تِرے منکر مِرے آقا تِری سرکارﷺ تک پہنچے
سیاست میں، قیادت میں فراست میں، ذہانت میں
کوئی تو ہو جو قائد کے حسیں کردار تک پہنچے
ہمارے ہاتھ میں اے کاش ہوتے پھول الفت کـے
مگر صد حیف ہم نفرت کے ہر ہتھیار تک پہنچے
ہمارے ذہن خالی ہو گئے سو لڑتے رہتے ہیں
خزانے اپنی دانش کے سبھی اغیار تک پہنچے
پھر اس کـے بعد ہر اوجِ تمنا اس کی قسمت ہــے
جو بیٹا سب سے پہلے اپنی ماں کـے پیار تک پہنچے
یہاں کچھ لوگ جیسے چلتے پھرتے دُھوپ میں سائے
خوشامد کے دَھنی تھے شاہ کے دربار تک پہنچے
خوشی سے کُھل اُٹھا مُرجھا رہا تھا چہرۂ ہستی
دعاؤں کے تحائف جب تِرے بیمار تکــ پہنچے
تصور میں چمن کے گھر سے نکلے تھے مگر حسنی
دم ماحول میں بارود کے انبار تک پہنچے
غلام حسن حسنی
No comments:
Post a Comment