اس کارِ عشق میں ہیں خسارے پڑے ہوئے
ہیں تیرے در پہ پاؤں پسارے پڑے ہوئے
افلاس ختم کر کے مکاں سر سے چھین لو
ایوانِ صدر پاس پتھارے پڑے ہوئے
مُنصف ہو مُدعی بھی، مگر چارہ گر نہیں
میری زمیں پہ تیرے اجارے پڑے ہوئے
تاریک شب میں گویا ہمیں آسماں لگا
گیسو کے پیچ و خم میں ستارے پڑے ہوئے
چلمن میں ایک تو نظر آتا نہیں تو پھر
میری بلا سے ہوں یہ نظارے پڑے ہوئے
تُو میرا عشق میرا سبھی کچھ تمہی تو ہو
تم بُھول جاؤ، ہم ہیں تمہارے پڑے ہوئے
گرداب و مد و جزرِ سمندر ہے زندگی
زندوں میں کیا شمار کنارے پڑے ہوئے
دل شہر ہے خموش ضیا ہا و ہُو نہیں
ڈل جھیل منجمد ہے شکارے پڑے ہوئے
امین ضیا
No comments:
Post a Comment