خونخوار مجرموں کو نمسکار کرو ہو
اور, امن پسندوں کو گرفتار کرو ہو
بے رحم رہزنوں سے یوں کر کے معاہدے
سر قوم کا دنیا میں شرمسار کرو ہو
مجرم کو شک کا فائدہ دیتے ہو منصفو
جو بے خطا ہیں اُن کو سزاوار کرو ہو
سر جس کا جُھکا ہو اُسے دیتے ہو خلعتیں
جو سر نہ جُھکائے نذرِ دار کرو ہو
اپنی عیاشیوں کے واسطے، اے حاکمو
کیوں مفت میں لوگوں کو قرضدار کرو ہو
گُل پوش سبزہ زار کا دے کر ہمیں فریب
پُر خار بیاباں میں ہمیں خوار کرو ہو
لو ہوش کے ناخن کہ جو ہوتے نہیں وفا
تم پھر اُنہی وعدوں کا اعتبار کرو ہو
شاہد! وہ پل رہے ہیں وسائل پہ ہمارے
کیوں خود کو تم کسی کا نمکخوار کرو ہو
شاہد حسین
No comments:
Post a Comment