Saturday 1 July 2023

گاہے ادھر کی فکر ہے گاہے ادھر کی ہے

 گاہے اِدھر کی فکر ہے گاہے اُدھر کی ہے 

مٹی غرض خراب جہاں میں بشر کی ہے 

معصوم کو بھی نزع ہے ہرگز نہیں مفر 

مظلوم کی دعا کو بھی حاجت اثر کی ہے 

چوٹی میں اور جُوڑے میں ظالم کے فرق ہے 

یہ راہ عمر بھر کی ہے وہ سال بھر کی ہے 

گل گیر کا خطر تو پتنگوں کی ہے خلش 

آفت میں جان شام سے شمع سحر کی ہے 

اُجڑی پڑی ہیں تُربتیں شاہانِ دہر کی 

پھولوں کی چادریں ہیں نہ بتی اگر کی ہے 

ہوتا ہے زندگی کا کوئی دم میں فیصلہ 

دن بھر کی بات ہے نہ پہر دو پہر کی ہے 

قدرت تو چار سُو تِری روشن ہے دہر میں 

حاجت نہ شمس کی نہ ضرورت قمر کی ہے 

قاتل وہ شاخ ہے تِری یہ تیغِ آبدار 

جس کو نہ گل کا غم ہے نہ حاجت ثمر کی ہے 

سب کچھ خدا نے مجھ کو دیا عرش بے طلب 

دختر کی آرزو، نہ تمنا پسر کی ہے 

اے عرش آؤ خاک میں دلی کے سو رہیں 

مٹ کر بھی خوابگاہ یہ اہلِ ہنر کی ہے 


عرش گیاوی

No comments:

Post a Comment