ایک آنسو کے ٹپک جانے سے غم افشا ہوا
تھا سمندر کا سمندر، بُوند میں ٹھہرا ہوا
یاد ہے کل ہم ملے تھے پھر نہ جانے کیا ہوا
وہ بھی کچھ کھوئے ہوئے تھے میں بھی کچھ کویا ہوا
اپنی اپنی راہ سے نکلے تھے یاران خودی
سب سے پہلے آ گیا میں دار سے ہوتا ہوا
اور بھڑکی آتشِ فرقت سمندر کے قریب
جل رہا ہے کوئی ٹھنڈی ریت پر بیٹھا ہوا
آدمی تو آدمی گھر بھی نظر آتے نہیں
شہر میں ایسا ہے نفرت کا دھواں پھیلا ہوا
دور تھا وہم و گماں سے یا وہ میرے دل میں ہے
کتنا لمبا راستہ ہے کس قدر سمٹا ہوا
آ گئے جب اے عدیل احباب کھل کر سامنے
تب کہیں ہم کو ہَوا کے رُخ کا اندازا ہوا
نظیر علی عدیل
No comments:
Post a Comment