کوشش ترکِ تعلق نے رُلایا ہے بہت
بُھولنا چاہا جب اس کو یاد آیا ہے بہت
ہے عمل کے بعد ہی دستِ دُعا کا مرحلہ
ہم نے اے واعظ خدا کو آزمایا ہے بہت
اک تبسم کے لیے سو بار آنکھیں نم ہوئیں
زندگی اے زندگی تُو نے رُلایا ہے بہت
دوستوں نے جب ہمیں لُوٹا وفا کے نام پر
دُشمنوں کی دُشمنی پر پیار آیا ہے بہت
سر اُٹھا کر چِلچلاتی دُھوپ میں کیجے سفر
سر جُھکا لیں تو گھنے پیڑوں کا سایا ہے بہت
ڈُھونڈنے جائیں سکونِ دل کہاں فرحت کہ اب
وحشتوں کا ہر گلی کُوچے میں سایا ہے بہت
خلیل فرحت کارنجوی
No comments:
Post a Comment