عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دربار رسالتﷺ میں
وہ جس کی شان میں رطب اللساں
آیاتِ قرآنِ مقدس ہیں
وہ جس کے آستانِ حق
پہ جبرائیلؑ سجدہ ریزہ ہوتا ہے
فرشتے جس کو امن و آشتی کا
گھر سمجھتے ہیں
مراتب میں جسے ہم عرشِ اعظم سے
بھی بالا تر سمجھتے ہیں
زمانے کو بڑا ہی فخر ہے
جس کی سیادت پر
گواہی دے رہا ہے خود خدا
جس کی صداقت پر
میں اس انسانِ کاملؐ کی
بھلا اپنے قلم سے
کیا ثناء لکھوں
میں شاطر ہوں، میں کاذب ہوں
فریبی ہوں غلط گو ہوں
ریا کاری و عیاری کا پُتلا ہوں
میں سیم و زر کے ٹکڑوں پر
میں دینار و درم کے تر نوالوں پر
ہلا کر دم مثالِ سگ جھپٹتا ہوں
مِرے نغمے سراسر آمریت
کے قصائد ہیں
خدا شاہد مِرے قلب و نظر میں
سینکڑوں شیطان پلتے ہیں
قلم میرا ہے ملکیت سیاسی قحبہ خانوں کی
زباں میری بیاں میرا سخن میرا
بکاؤ مال ہے میرا
جو بازارِ ہوس میں روز و شب
نیلام ہوتا ہے
میں شاعر ہوں سخن گو ہوں
ادیبِ کوہ قامت ہوں
مگر نیلام گاہِ حرص کی
میزان کے پلڑوں میں تلتا ہوں
خریداروں کا جھرمٹ ہے
کہ کم ہونے نہیں پاتا
میں وہ اہلِ قلم ہوں
جو قلم کی آبرو کو بیچ کھاتا ہے
میں جب چاہوں کسی بونے کو
قامت ناپ کر کوہِ گراں لکھدوں
مِری نوکِ قلم سے شہر کے
اہلِ شرافت کانپ اٹھتے ہیں
میں جب چاہوں سبک سر کو
سجا دیتا ہوں دستارِ فضیلت سے
یہ کیا شک ہے کہ میں پروردۂ آئینِ باطل ہوں
یہ کیا شک ہے میں اپنے عہد کی
ہر ایک سچائی کا قاتل ہوں
مِری مکارئ فن کا وہ عالم ہے
رسول اللہؐ
کہ میری دہشتِ تحریر سے
مخلوقِ سادہ کار ڈرتی ہے
صحافت سر برہنہ میرے در پر
رقص کرتی ہے
شرابی ہوں مگر میں احتراماً
چھپ کے پیتا ہوں
مِرے زر پوش بستر پر
ہر اک سیمیں بدن کا دامنِ عصمت
مِری شہوت پرستی کے جہنم زار میں
شب بھر سلگتا ہے
میں ہر اک فاحشہ پر
دل کی گہرائی سے مرتا ہوں
میں زانی ہوں زنا با الجبر کرتا ہوں
ہر اک شاہِ ملامت کے فقط
ادنیٰ اشارے پر
ہر اک مسند نشینِ وقت کے
ابرو کی جنبش پر
کبی میں نعت لکھتا ہوں
کبھی میں حمد لکھتا ہوں
کبھی مظلوم اور محکوم پر
میں انقلابی شعر لکھتا ہوں
کہ میرے پاس دو رنگی بیاضوں کا
ذخیرہ ہے
جسے ہر دم برائے مصلحت
رکھتا ہوں اپنے جیب و دامن میں
یونہی موسم بدلتا ہے
مِرے فکرو نظر کے زاویئے میں
اک تغیر آ ہی جاتا ہے
مِرے پیارے رسول اللہؐ
میں گِرگٹ کی طرح ہر آن
رنگ اپنا بدلتا ہوں
مِری نظریں ہوا کے رخ پہ رہتی ہیں
میں خائن ہوں، منافق ہوں
میں اب ناپاکئ لب سے
تِری شانِ کریمانہ پہ کیا لکھوں
جو تم چاہو مجھے علم و ادب کا مسخرہ کہہ لو
مِرے پیارے رسول اللہؐ
شرف مجھ کو عطا کر ہمکلامی کا
بہت ہی ناز ہے مجھ کو
تِرے در کی غلامی کا
ملے اذنِ قبولیت کہ یا ردّ قبولیت
میں دربارِ رسالتؐ میں
بصد تعظیم آیا ہوں
مرے دل کی بیاض درد میں
لکھا ہوا حرفِ دعا میرا
یہی ہے بس یہی ہے یا رسول اللہؐ
کہ ہم باطل پرستوں کو
شعورِ حق پرستی دے
کہ ہم جیسے غلط گویانِ عالم کو
صداقت آشنا کر دے
تو ہم مردہ ضمیروں کو
سر و سرمایۂ روشن ضمیری دے
ہم اندھے ہیں ہماری بے بصر
آنکھوں میں اک روشن
بصارت کا دِیا کر دے
مِرے پیارے رسول اللہؐ
مِرے پیارے رسول اللہؐ
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment