عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کنارے آنکھ کے دریا ٹھہر گیا جیسے
بچھائے جاتی ہو فرشِ عزا ہوا جیسے
تپش سے زرد ہوا ایسے روح کا موسم
لگا کے چاند نئے سال کا چڑھا جیسے
بُجھی بُجھی سی طبیعت بھرا بھرا سا ہے دل
کہ ہو رہی ہو محرّم کی ابتداء جیسے
اُداسیوں نے اڑائی وہ ریت سانسوں میں
مرے مزاج میں اتری ہو کربلا جیسے
زمینِ دل پہ چلی یوں ہوائے آہ و بکا
ہو ریگزار میں خیمہ کوئی جلا جیسے
سوال توڑ گئے دم، اُمید ٹوٹ گئی
فرات پر کوئی مشکیزہ گر گیا جیسے
کہو یہ دیدۂ تر سے کہ اس طرح برسے
ہو احترامِ امامت کا حق ادا جیسے
ظل ہما
No comments:
Post a Comment