عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دھرتی پہ آسمان اُترتا چلا گیا
کعبہ خوشی کے مارے سرکتا چلا گیا
ان کا ظہور ہوتا ہے جیسے کہ الکتاب
مُنکر کے دل میں تیر سا چلتا چلا گیا
نرجس سے کہہ رہی ہے حکیمہ سلام ہو
اک نُور تیری گود کو بھرتا چلا گیا
خود چودھویں کا چاند عجب گو مگو میں تھا
زہراؑ کا چاند دیکھ کے ڈھلتا چلا گیا
آیا علیؑ کا لعل تو کچھ یاد آ گیا
جشنِ غدیر پھر سے مہکتا چلا گیا
نرجس کا چاند دیکھ کے چُندھیا گیا جہاں
یوسفؑ کا بھاؤ شہر میں گھٹتا چلا گیا
قائم نے بھی نقاب اتارا نہیں بتول
عیسیٰؑ کا اشتیاق بھی بڑھتا چلا گیا
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment