Tuesday, 25 July 2023

نہ منصب سے غرض نہ خواہشِ جاگیر رکھتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


نہ منصب سے غرض، نہ خواہشِ جاگیر رکھتے ہیں​

جو رکھتے ہیں تو عشقِ روضۂ شبیرؑ رکھتے ہیں​

خیالِ زلف و روئے حضرتِ شبیرؑ رکھتے ہیں​

ہم اپنی چشم میں دن رات کی تصویر رکھتے ہیں​

شبِ ہفتم سے ہے غیظ و غضب عباسِؑ غازی کو​

نہ کاندھے سے سپر، نہ ہاتھ سے شمشیر رکھتے ہیں

​ٹپک پڑتے ہیں مثلِ شمع آنسو، جلنے والوں کے​

مِرے دل سوز نالے بھی عجب تاثیر رکھتے ہیں​

بِلا قید آئیں سائل، تھا یہ حکمِ حیدرِؑ صفدر​

سخی جو ہیں وہ دروازے میں کب زنجیر رکھتے ہیں​

تجرّد پیشہ ہیں، ہم کو عداوت ہے تعلق سے​

کمر میں بہرِ قطعِ آرزو، زنجیر رکھتے ہیں​

نبیؐ کے نقشِ پا ہیں، یہ زمانہ جن سے روشن ہے​

مہ و خورشید کب اس طرح کی تنویر رکھتے ہیں​

ورائے فقر کیا ہے اور، گھر میں ہم فقیروں کے​

وہ دیوانے ہیں دروازے میں جو زنجیر رکھتے ہیں​

خوشی ہے قُربِ حق کی، آرزو امت کی بخشش کی​

گلا خود زیرِ خنجر حضرتِ شبیرؑ رکھتے ہیں​

بھلا دیکھیں فشارِ قبر یاں تک کیوں کر آتا ہے​

کفن میں ہم غبارِ تربتِ شبیرؑ رکھتے ہیں​

وہ کٹواتے ہیں اُمت کے لیے سُوکھے گلے اپنے​

جو فردوسِ بریں میں جوئے شہد و شِیر رکھتے ہیں​

علیؑ کی تیغ سے کھودی ہے رن میں قبر چھوٹی سی​

لحد میں آپ حضرتؑ لاشۂ بے شِیر رکھتے ہیں​

وطن سے جن سبھوں نے شاہؑ کو مہماں بلایا تھا​

وہ تلواروں پہ باڑھیں ترکشوں میں تیر رکھتے ہیں​

چُبھو دیتا ہے خولی نوکِ نیزہ پشتِ عابدؑ پر​

زمیں پر ہاتھ سے جب پاؤں کی زنجیر رکھتے ہیں​

​ق

یہ وقتِ ظہر گردوں سے صدا آتی تھی ہاتف کی​

کہ ہاتھ اب قبضۂ شمشیر پر شبیر رکھتے ہیں​

وہ پنجہ ہے کہ جس میں قوتِ مُشکل کشائی ہے​

وہ بازو ہیں جو زورِ شاہِ خیبرؑ گیر رکھتے ہیں​

کسی نے نزع میں یہ مرتبہ، یہ اوج پایا ہے

سرِ حُر اپنے زانو پر شہِ دل گیر رکھتے ہیں​

توقع جن سے تھی وہ لوگ مطلب آشنا نکلے​

انیس افسوس! ہم بھی کیا بری تقدیر رکھتے ہیں​

میر انیس

No comments:

Post a Comment