عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وہ، لہو سے جس کے، دشتِ کربلا روشن ہوا
کربلا کیا، دو جہاں کا آئینہ روشن ہوا
آفتابِ صبح پرور تھا وہ، اس کی ذات سے
مطلعِ احسان و ایثار و وفا روشن ہوا
دشمنوں سے گفتگو بھی، کتنی معصومانہ تھی
بدنما تھا جو ورق تاریخ کا روشن ہوا
اس کے دامن کی ہوا تھی، دامنِ بادِ مراد
تیز آندھی میں، چراغِ ارتقاء روشن ہوا
پاؤں رکھتے ہی شہادت کی عزیمت گاہ میں
زندگی پر، زندگی کا مدعا روشن ہوا
کس ادا سے کر گیا، کالے سمندر کو عبُور
نیل کی تاریک موجوں میں، عصا روشن ہوا
دل شکستوں کو ملا، قربانیوں کا حوصلہ
دورتک، جہدو عمل کا سلسلہ روشن ہوا
کیا بُجھاتا، اس کی مشعل کو، یزیدوں کا نفس
جس قدر روشن تھا وہ، اس سے سوا روشن ہوا
شخصیت جیسی ہو، ویسا ہی تخاطب چاہیے
میں نے لب کھولے، تو حرفِ ماجرا روشن ہوا
خیر و برکت کا وظیفہ ہے کہ اس کا ذکرِ خیر
مدتوں کے بعد، یہ دستِ دعا روشن ہوا
حجرۂ جاں، حجلۂ صِدق و صفا روشن ہوا
فضا ابن فیضی
No comments:
Post a Comment