مری تو خود سے منہ ماری ہوئی ہے
تری آواز کیوں بھاری ہوئی ہے
تُو کن لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہے
تِری تو سوچ بھی ہاری ہوئی ہے
تمہارے جسم سے کیا مَس ہوا میں
جو میرے دل کو سرشاری ہوئی ہے
دُھلی ہے شک کے صابن سے یقیناً
جو چادر سُوکھ کر بھاری ہوئی ہے
اذاں کے ساتھ کوئی یاد اُبھری
سو چشمِ نم سے افطاری ہوئی ہے
پرندوں نے دِکھائے ہاتھ، لیکن
درختوں کی گرفتاری ہوئی ہے
ہمارے خواب کوئی لے اُڑا ہے
ذرا سی نیند کیا طاری ہوئی ہے
کسی کے ہو کے بھی اپنے رہے ہیں
یہی ہم سے سمجھداری ہوئی ہے
مجھے لگتا ہے وہ جعلی ہے، راجا
جو مجنوں کو سند جاری ہوئی ہے
اویس راجا
No comments:
Post a Comment